Friday, January 26, 2024

پاکستان اور ایران

 انسان صدیوں سے جھوٹا دعوی کرتا رہا ہے کہ ہم وطن سے محبت کرتے ہیں اور ہمارا وطن ہماری دھرتی ماں ہےلیکن حقیقت تو یہ ہے کہ جب بھی اس دھرتی ماں نے گھاس اگانا بند کر دی انسان نے اپنی دھرتی ماں کو خیر باد کہا اور کسی اور وطن کی تلاش میں نکل پڑا جہاں ان کو خوراک ملی وہیں اپنی بستیاں قائم کرلیں اور اسی کو اپنا وطن بنا لیا، تاریخ اس مثالوں سے بھری پڑی ہے۔وقت گزرتا گیا انسان ماڈرن سے ماڈرن ہوتا گیا معاشرت کے طور طریقوں میں ترقی کرتا رہا، ساٸنسی انقلاب آۓ، سیاست کے نٸے طور طریقے اپنا لیے۔آبادی میں اضافہ ہوا تو مختلف رنگ ،نسل، زبان اور علاقوں میں تقسیم ہونا شروع ہو گئے۔ میرا یہاں بحث کا نقطہ نظر پاکستان ہے، پاکستان کیسے وجود میں آیا اور پاکستان کی موجودہ صورتحال قرآن کی روشنی میں کیا ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا میں کوئی بھی مسلم ریاست آزاد نہ تھی تو دوسری جنگ عظیم کے بعد آہستہ آہستہ مسلم ریاستیں ازاد ہونا شروع ہو گئیں لیکن سب اسلامی ریاستیوں نے رنگ، علاقے، نسل اور زبان کی بنیاد پر آزادی حاصل کی۔ اس کی زندہ مثال عرب ممالک ریاستیں ہیں مصر، عراق، شام سب عربی بولتے ہیں لیکن انہوں نے رنگ ، نسل ، زبان اور علاقے کی بنیاد پر آزادی حاصل کی اور علیحدہ علیحدہ ریاستیں بن گئیں مصری قوم فرعون کی اولاد، اہرام مصر اور دریاۓ نیل کے وارث ہونے کے دعویدار بن کر آزاد ہوۓ تو عراقی میسوپوٹیمیا کی تہذیب کے وارث بنے اور آزاد ہو گٸے۔ مختصر یہ کہ جس دور میں ریاستیں رنگ، نسل، زبان اور علاقے کی بنیاد پر تقسیم ہو رہی تھیں اس زمانے میں علامہ اقبال نے دو قومی نظریہ پیش کیا اور کہا کہ ہم مسلمان ہندوؤں سے الگ قوم ہیں اور کلمہ کی بنیاد پرایک الگ ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا۔ پاکستان کی علیحدگی کا اعلان ہوتے ہی بلوچستان میں بلوچ پاکستان میں کلمے کی بنیاد پر شامل ہوئے حالانکہ ایران میں کافی زیادہ بلوچی بولنے والے لوگ تھے پٹھان پشتو بولنے والے کلمے کی بنیاد پر پاکستان میں شامل ہوئے حالانکہ افغانستان میں پشتو بولنے والے تھے پنجابیوں نے پنجابیوں کو چھوڑا پنجاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا اور پاکستان میں شامل ہوۓ بنگال بھی دو حصوں میں تقسیم ہوا اورمسلمان بنگالی بھائیوں کو چھوڑ کر پاکستان میں شامل ہوۓ۔ تاریخ کی بہت بڑی ہجرت ہوٸی، دریاۓ راوی کا رنگ سرخ ہو گیا لاکھوں لوگوں نے جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔

ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم میں سر ریڈ کلف نے پاکستان کے ساتھ جو سوتیلی ماں جیسا رویہ اختیار کیا اس سے سب واقف ہیں تقسیم کا اعلان ہوتے ہی کشمیر پر حملہ کر دیا گیا، حیدرآباد اور جونا گڑھ ریاست کو زبردستی انڈیا میں شامل کیا گیا۔ اس وقت پاکستان بہت مشکل حالات سے دوچار تھا جس وقت ہندوستان کے حکمرانوں کی طرف سے یہ کہا جا رہا تھا کہ پاکستان ایک سال تک نہیں اپنی بقا نہیں بچا سکتا ایک سال کے اندر اندر ہندوستان میں ضم کر لیا جائے گا اس وقت ایران نے پاکستان کو تسلیم کر لیا۔ 

وقت گزرنے کے ساتھ پاکستان مظبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا ہندوستان کے خواب چکنا چور ہوتے گئے یہاں تک کہ کئی جنگوں میں ہندوستان سے شکست کرنا پڑی تو کئی جنگوں میں ہندوستان کو ناکوں چنے چبوا دیے اور دنیا پر اپنی دھاک بٹھا دی

پاکستان کی آزادی کے ہی چند سال بعد عرب مسلمانوں کے وسط میں اسرائیل کا قیام عمل میں آیا جو کہ مسلمانوں کے دلوں میں خنجر گھونپنے کے مترادف تھا۔

 1998میں پاکستان نے کامیاب ایٹمی میزاٸل کا تجربہ کیا اور دشمن کے عزاٸم خاک میں ملا دیے۔ اُس وقت کشمیر کے مظلوم مسلمان اور فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کے دلوں میں ازادی کی لہر پیدا ہوئی کہ آج سے ہم ازاد ہو گئے ہیں لیکن یہ ان کا صرف خواب ہی تھا۔ گزشتہ چند مہینوں سے اسراٸیل ظلم کی ساری حدیں پار کر چکا ہے لیکن اسلامی ممالک کو کوٸی پرواہ نہیں۔ پاکستان کے حکمران تو کوٸی ایسا بیان بھی نہ دے سکے جس سے فلسطین کے مسلمانوں کو دلاسہ مل سکے۔

چند دن پہلے جس ایران نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا اسی ایران کی جانب سے پاکستان کی سرحد پر میزاٸل حملہ کیا گیا جس کے جواب میں پاکستان نے بھی ایران پر حملہ کیا اور ثابت کیا کہ ہم اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں کاش ایران اور پاکستان ایک ہی بینچ پر بیٹھ کر فلسطین اور کشمیر کے مسلمانوں کیلٸے آواز اٹھاتے۔

 قرآن کی سورت الماٸدہ آیت نمبر 45 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ 

“اور ہم نے ان لوگوں کے لیے تورات میں یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور سب زخموں کا اسی طرح بدلہ ہے لیکن جو شخص بدلہ معاف کر دے وہ اس کے لیے کفارہ ہوگا اور جو خدا کے نازل فرمائے ہوئے احکام کے مطابق حکم نہ دے تو ایسے ہی لوگ بےظالم ہیں“

 سورت الانعام آیت نمبر 65 میں ارشاد فرمایا 

”تم فرماؤ وہ قادر ہے کہ تم پر عذاب بھیجے تمہارے اوپر سے یا تمہارے پاؤں کے تلے (نیچے) سے یا تمہیں بھڑا دے مختلف گروہ کرکے اور ایک کو دوسرے کی سختی چکھائے، دیکھو ہم کیونکر طرح طرح سے آیتیں بیان کرتے ہیں کہ کہیں ان کو سمجھ ہو“۔ 

ذرا غور کریں تو کیا ہماری معیشت کا اس حد تک گر جانا، سیلاب، بغاوتیں اور ایران پاکستان کا اچانک یوں آمنے سامنے ہونا اللہ کا عذاب تو نہیں ؟

علامہ اقبال نے کہا

اللہ سے کرے دور ، تو تعلیم بھی فتنہ

املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ

نا حق کے لیے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ

شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ

Thursday, January 25, 2024

chor sabhi mery shehr k nawab hn gy

 کچھ تمہارے خواب ہوں گے،کچھ مرے خواب ہوں گے

کوٸی طالب ہے عیاشی کا تو کسی کے من میں گلاب ہوں گے


کب تک رہے گا یہ لوٹ مار کا عالم

کبھی تو یہ کالے چہرے بھی لاجواب ہوں گے


یہ بچے جو بیچتے ہیں کھلونے بازاروں میں

کوٸی ماں بتاۓ ان کے بھی کوٸی خواب ہوں گے


جھکے نہ ترازو اگر انصاف کا تو مرا یہ دعویٰ ہے

چور سبھی مرے شہر کے نواب ہوں گے

Thursday, January 18, 2024

main hara huwa hn yaa harya gyaa hn

 میں اکثر یہ سوچتا رہتا ہوں 

میں ہارا ہوا ہوں یا هرايا گیا ہوں

(Saleem Ul Hassan)

main lut gyaa hn, main bika nhi

 میں لٹ گیا ہوں ، میں بکا نہیں 

میں ہار گیا ہوں پر میں جھکا نہیں

(Saleem Ul Hassan)

yahan sab kuch bikta hy

 یہاں سب کچھ بکتا ہے۔

یہاں پانی بھی بکتا ہے، یہاں خون بھی بکتا ہے۔

اب توڈَرلگتا ہے اپنے ہی پہرے داروں سے

یہاں چور بھی لوٹتا ہے، یہاں سپاہی بھی لوٹتا ہے

میں انصاف ماںگوں بھی تو آخر کس سے

یہاں قانون بھی بکتا ہے، یہاں قاضی بھی بکتا ہے

(Saleem Ul Hassan)

مرے وطن کے سستے دام سن کر

 قائد بھی جھوم اٹھے آزادی کا خواب سن کر

دشمن لرز اٹھا وطن کا نام سن کر 

آج تڑپ رھی ھو گی روح شھیدوں کی

مرے وطن کے سستے دام سن کر

(Saleem Ul Hassan)

ہم کوٸی غلام تو نہیں

 اقتدار میں آ کر تو پہچانے کیوں

عوام سے ہو بیگانے کیوں

حالات سے ہو انجانے کیوں

ہم کوٸی غلام تو نہیں


دشمن کے ہو دیوانے کیوں

یہاں ہیں دشمن کے ٹھکانے کیوں

امریکہ کے روز ترانے کیوں


بک گٸے ضمیر تمہارے، ضمیر کی منڈیوں میں

لٹ گٸی عزت غریب کی انصاف کی پابندیوں میں


عوام سے چھپاتے ہو چہرے کیوں۔انصاف کے تقاضوں سے ہو بہرے کیوں

خاموش ہیں انصاف کے کٹہرے کیوں

ہم کوٸی غلام تو نہیں

یہ آداب الوداع تھا یا خلوص محبت

 یہ آداب الوداع تھا یا خلوص محبت

نظروں سے اوجھل ہونے تک آنکھوں کا تکتے رہنا

(Saleem Ul Hassan)

Wednesday, January 17, 2024

امیر شہر سخاوت کے چرچے کرتا رہا

امیر شہر سخاوت کے چرچے کرتا رہا

غریب شہر فاقوں سے لڑتا رہا


مطمٸن نہ ہوا حاکم شہر کے کھانوں سے

رات بھر غریب کا بچہ دودھ کو ترستا رہا


مصروف رہا قاضی مجرموں کی محفل میں

مظلوم شہر عدالتوں میں پھرتا رہا


سولی چڑھا دیا مقتول کے گواہوں کو

جو قاتل تھا پاس کھڑا ہنستا رہا

بکھری پڑی ہیں تہذیب کی کرچیاں

 بکھری پڑی ہیں تہذیب کی کرچیاں

یہاں کیوں خالی پڑی ہیں انصاف کی کرسیاں


کبھی ترستا تھا غریب شہر روٹی کو

اب تو قاتل بن گٸ ہیں یہ روٹیاں


روز اٹھتی ہیں لاشیں مسجدوں اور بازاروں میں

لیکن یہاں محفوظ ہیں افسروں کی کرسیاں


غربت نے بیچ دیا گھونگھٹ کو بازاروں میں

یہاں امیروں کی عیاشی بھی ہیں غریبوں کی بیٹیاں

ہم نیندیں بھی دفن کر لیتے ہیں

 ہم نیندیں بھی دفن کر لیتے ہیں

ہم خواب بھی دفن کر لیتے ہیں


مانا مرے غموں کا گواہ نہیں اگر کوٸ

چلو مرے آنسوٶں کا ہی وزن کر لیتے ہیں


کب تک کروں گا اعتبارقاتلوں کی زبان پر

یہاں تو لوگ بھی عہد شکن کر لیتے ہیں


مجھے مار کر بھی نہیں چھپے گا جرم ترا

لوگ تو روایتیں بھی سخن کر لیتے ہیں 


کب تک لڑتے رہو گے سارے شہرسے سلیم

مری مانو تو ترک وطن کر لیتے ہیں

کوچ کر جاؤ اس شہر سے شام سے پہلے پہلے

کوچ کر جاؤ اس شہر سے شام سے پہلے پہلے
یہاں قافلے لٹ جاتے ہیں شام سے پہلے پہلے

روز لٹتی ہے عزت غریب کی
پر انصاف بک جاتا ہے عدالت سے پہلے پہلے

ساری رات غلبہ رہتا ہے لٹیروں کا
پر ثبوت مٹ جاتے ہیں سحر سے  پہلے پہلے

خون بیچنے بھی نکلے  اگر کوئ بازار میں 
تو خون بھی لٹ جاتا ہے بکنے سے  پہلے پہلے

یہاں سب لگاتے ہیں نعرے آزادی کے 
پر دیوان جھک جاتے ہیں دام لگنے سے  پہلے پہلے

سلیم تم چپ ہی رہو تو بہتر ہے
یہاں سولی چڑھ جاتے ہیں بغاوت سے  پہلے پہلے

روز چھپتی ہیں اخباروں میں انصاف کی سرخیاں

 روز چھپتی ہیں اخباروں میں انصاف کی سرخیاں

پریہاں سرعام بکتی ہیں عزت کے بھاٶ روٹیاں


شکر ہےخدا کا جنت ملے گی آخرت میں

ورنہ سر عام چھن جاتی مسجدوں میں نیکیاں

(Saleem Ul Hassan)

Tuesday, January 2, 2024

گھاٹے کا تھا سودا، یہ دنیا کا سہارا

زمانے سے نہ لڑ سکا میں قسمت کا مارا


غربت تھی پر خود پہ تھا دلیری کا غرور اتنا

پھر بھی بن سکا، نہ میں سکندر ، نہ میں دارا


زمانے کی بے رخی کو میں نے وفاؤں سے بچھاڑا

آخر سر جھکانا ہی پڑا، آج میں موت سے ہارا


کچھ مرنے کی جلدی بھی تھی مجھ کو

انتظار میں تھا، میں دیکھنے کوجنت کا نظارہ

(Saleem Ul Hassan)

پاکستان اور ایران

 انسان صدیوں سے جھوٹا دعوی کرتا رہا ہے کہ ہم وطن سے محبت کرتے ہیں اور ہمارا وطن ہماری دھرتی ماں ہےلیکن حقیقت تو یہ ہے کہ جب بھی اس دھرتی ماں...