ایک گاؤں میں ایک فاطمہ نامی عورت رہتی تھی، فاطمہ کے شوہر چودھری عبدالکریم گاؤں کے معزز آدمی تھے عبدالکریم ایک بلدارکی نوکری کررہے تھے انکی کوئی اپنی زمین نہ تھی،ان کے والد وراثت میں ایک گھر اور کچھ زمین چھوڑ گۓ کچززمین پہ چچا نے قبضہ کر لیا ابھی حالات اتنے بہتر نہیں ہو ۓ تھے توچھوٹے بھائی عبدالرحیم نے لوگوں اور بیوی کی باتوں میں آ کر علیحدگی کا مطالبہ کردیا. کیوں کہ چودھری عبدالکریم ایک بلدار کی نوکری کر رہے تھے تو گزارا ہو رہا تھا انکی بیوی فاطمہ ایک کفایت شعار عورت تھی جو گھر میں کپڑے سلائی کر کے اپنے شوہر کے ساتھ شانہ بشانہ حالات کا مقابلہ کر رہی تھی. ان کے چار بیٹےفرمان، لقمان، عثمان اور عرفان اور ایک بیٹی رخسا نہ تھی. وقت اچھا گزر رہا تھا چودھری عبدالکریم نے چاروں بیٹوں کی شادیاں کر دیں لیکن ابھی رخسانہ کی شادی نہیں ہوئی تھی کیوں کہ رخسانہ سب سے چھوٹی تھی. رخسانہ آٹھ جماعتیں پڑھ کر گھر ماں کے ساتھ گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹا رہی تھی. چودھری عبدالکریم ریٹائر ہو گۓ تھے بڑا عرفان بیٹا گھر کے کام کاج میں ذمہ داری لیتا لیکن چھوٹے بھائیوں نے اپنی ہی دنیا بسا لی سو چھوٹے بھائیوں کی گھر میں دلچسپی نہیں تھی. کہتے ہیں برے دن بتا کر نہیں آتے چودھری صاحب کو بیماری نے گھیر لیا اور چند مہینوں میں خالق حقیقی سے جا ملے ساری ذمہ داری بڑے بھائی عرفان کے کندھوں پہ آ پڑی.چھوٹے بھائی علیحدہ ہو گۓرخسانہ پر تو قیامت ڈھاچکی تھی، اب فاطمہ بھی بوڑھی ہو چکی تھیں. عرفان کے اپنے بھی بچے تھے وہ رخسانہ کو دلاسا دیتے اور صبر کرنے کا بولتے جب وہ شام کو گھر آتے تو بچوں کیلئے کوئی فروٹ لے کر آتے تو رخسانہ کو بلا کر کہتے آپ اماں جی کو بھی دو آپ بھی کھاؤ اور بچوں میں بھی بانٹ دو شروع شروع میں تو عرفان کی بیوی کورخسانہ سے کوئی تکلیف نہ تھی لیکن کچھ دنو بعد جلن محسوس ہونے لگی توبات طعنہ زنی تک جا پھنچی. کچھ دن تو رخسانہ بھائی کو بتاتی رہی لیکن بے سود بعد میں جب کوئی بھابھی سے جھڑک کھاتی تو چپکے سے آنسو بہا کر غم ہلکا کر لیتی ابا جان کی پنشن اور عرفان کی کمائی سے گھر کے حالات کچھ بہتر تو تھے لیکن جیسے جیسے عرفان کے بچے بڑے ہو رہے تھے گھر کے خرچ میں اضافہ ہو رہا تھا. کچھ دنوں بعد عرفان نے گھر کے معاشی حالات سے نمٹنے کیلیے بھر جانے کا سوچا اور آخر کار باہر چلے گۓ. اب فاطمہ بھی کافی کمزور ہو چکی تھیں اور یادداشت بھی جاتی رہی. عرفان کی بیوی سارا دن رخسانہ پر حکم چلاتی ، ڈانٹتی اور طنز کرتی البتہ چودھری عبدالکریم کی پنشن فاطمہ کو مل رہی تھی جب چھوٹے بھائیوں کے گھر کے اخراجات بڑھنے لگےتودوسری بہوؤں کی بھی پنشن پر نظر پڑ گئی. تو ہر مہینے کے آخر پر ایک بہو آتی اور فاطمہ کو روغنی باتیں سنا کر ساتھ لے جاتی پہلا ہفتہ تو رخسانہ اور فاطمہ کی خوب آؤ بھگت ہوتی لیکن چند جیسے ہی پنشن ختم ہوتی تو بہو کا فاطمہ اور رخسانہ کے ساتھ سلوک بدل جاتا اور اگلے مہینے دوسری بہو کی باری آ جاتی رخسانہ کی عمر بھی گزرتی جا رہی تھی اور فاطمہ تو الله کو ہی یاد کرتی رہتی اور ہمیشہ اپنی بہوؤں سے کہتی کے آپ کہیں رخسانہ کا رشتہ ڈھونڈو لیکن بہوئیں اپنی لوٹ مار میں مصروف تھیں رخسانہ کا والدہ اور الله کے علاوہ کوئی نہ تھا. اگر پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات دیکھی جائے تو اسی کہانی کے مترادف ہے ہمارے سیاسی لیڈر عوام کے ساتھ بہوؤں جیسا سلوک کر رہے ہیں۔ سب سیاسی پارٹیاں باری باری عوام کوخواب دیکھا کر اپنی دھندے میں مصروف ہیں۔
No comments:
Post a Comment