Sunday, February 9, 2020

یورپ کو تہذیب یافتہ کس نے بنایا


Henry Ford نے کہا تھا تاریخ دھوکہ ہے۔ میں اس بات سے اتفاق کروں گا آج کا یورپ وامریکہ اسکی زندہ مثال ہے۔ آج اپنے آپکو پر امن اور با اخلاق تہذیب کا گہوارہ کہلانے والا یورپ کو ہمارے مسلم آباؤ اجداد نے ہی اٹھنے، بیٹھنے ،کھانے ،پینے اور رہنے سہنے کے آداب سکھاۓ تہذیب کے طور طریقے اور لکھنا پڑھنا سکھایا اور اسطرح ایک وحشی قوم کو جہالت سے نکالا، لیکن افسوس آج کایورپ مسلم دنیا کو ایک آنکھ نہیں دیکھنا چاہتا۔

٨٠٠ قبل مسیح یورپ میں مختلف وحشی قبائل بت پرست آباد تھے۔ جن کا کام لڑنا اور ڈاکے ڈالنا تھا، پڑھنا لکھنا سے واقف تک نہ تھے ہر طرف جہالت کی تاریکی تھی انسانیت کا نام تک نہ تھا۔ گیارھویں صدی عیسوی میں اسلامی تہذیب اور علوم و فنون مختلف راستوں سے یورپ تک جا پہنچے۔ پھر پانچ چھ صدیوں بعد تعلیمی ادارے قائم ہوۓ اور عربی علوم کے انگریزی، فرانسیسی اور دیگر زبانوں میں تراجم ہوۓ۔ اسی دوران برطانیہ، فرانس اور امریکہ میں انقلابات آۓ اور اسطرح جہالت اور وحشیت کا دور ختم ہوا۔ پروفیسر آرنلڈ لکھتے ہیں کہ "عربی کتابوں کے سینکڑوں تراجم یورپ کی برباد زمین پر بارش بن کر برسے اور مختلف شعباۓ علم نے انگڑائی لی۔" لی بان نے کہا "اگر عربوں کی تاریخ یورپ کی تاریخ سے نکال دیا جاۓ تو یورپ کی تہذیب کئی سو سال پیچھے جا پڑتی ہے۔" 

نہ جانے ہماری سے ایسی کیاخطا ہو گئی کہ اس وحشی قوم نے سنبھلتے ہی ہمیں لوٹا اور غلام بنا لیا، بڑے بڑے علماء و حکماء کو قتل کر دیا گیا، یہاں تک کی ہماری تاریخ کو ہی مسخ کردیا۔ مختلف ادوار اور مقامات میں ساٹھ لاکھ کتابیں جلا دی گئیں اور بچی کھچی کتابیں یورپ پہنچا دی گئیں اور اسطرح ہمارے علوم کو بنیاد بنا کر دنیا کی وحشی قوم تہذیب یافتہ قوم بن گئی اور ہم لٹ کر دہشت گرد بن گئے۔ یورپ جو بارھویں صدی تک کاغذ کے نام سے واقف تک نہ تھی آج اس یورپ نے ہمارے سامنے ایک ایسا نصاب پیش کیا جس میں ہمیں یہ پڑھایا جاتا ہے کہ امریکہ کولمبس نے دریافت کیا، بونگ سٹون نے افریقہ دریافت کیا اور راجر بیکن بارود کے موجد ہیں لیکن یہ کوئی نہیں جانتا کہ یورپ کا باباۓ سائنس راجر بیکن عربوں کا شاگرد تھا۔ بیکن نے بارود سازی ایک عربی کتاب (النیران المحرقه) سے سیکھی تھی۔ توپ کو سب سے پہلے افریقہ کے ایک سردار یعقوب نے ١٢٠٥ء میں استعمال کیا، بیکن کا دعوی بالکل غلط ہے۔کولمبس بھی عربوں کا شاگرد تھا اس کے پاس کمپاس تھا جس کا موجد احمد بن ماجد تھا اور یہ آلہ عربوں کے ہر تجارتی و جنگی جہازوں میں لگا ہوا تھا لیکن جب یہ آلہ یورپ والوں کے پاس پہنچا تو کولمبس اسکی رہنمائی لیتے ہوۓ امریکہ جا پہنچا۔ اور افریقہ جانے والوں کے پاس جو نقشے تھے وہ عرب صدیوں سے بحیرہ روم، بحیرہ قلزم، بحر ہند اور بحر الکاہل کے سفر میں استعمال کرتے تھے۔ اور واسکوڈے گاما جب ملیندا پہنچا تو احمد بن ماجد نے ہی اسے ہندوستان کا راستہ بتایا۔ آج سے تقریباً ٤٠٠ برس قبل ابن نفیس نے دوران خون کا عمل دریافت کیا لیکن میڈیکل کی کتابوں میں ابن نفیس کی جگہ ولیم ہاروے کا نام دیا گیا ہے۔ جب نیوٹن اور گلیلیو نے کہا تھا تمام طبعی قوانین مطلق ہیں تو الکندی نے کہا اضافی ہیں لیکن ہمارے نصاب میں لکھا ہے کہ نظریہ اضافت آئن سٹائن نے پیش کیا لیکن الکندی کو کوئی نہیں جانتا جس نے فلسفہ، حساب، طبیعات، ہیت ، طب، موسیقی اور دیگر عنوانات پر دو سو پچیس کتابیں لکھیں۔ جابر بن حیان نے کیمیا پر تقریباً ٢٠٠٠ مضامین لکھے ایک مترجم نے جابر بن حیان کے لاطینی ترجمہ کو لفظ جابر کو "جیبر" کی شکل دے کر اپنی تصنیف بنا لیا۔ راجر بیکن نے ابن الہیثیم کے مشاہدات کو ہی بنیاد بنا کر دوربین ایجاد کی اور ابن الہیثیم نے دو سو کبابیں لکھیں۔دل ڈیوران لکھتے ہیں کہ ایک مسلمان سائنسدان ابن فرناس نے گھڑی اور عینک کا شیشہ ایجاد کر کے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا لیکن آج ابن فرناس کا نام کوئی نہیں جانتا۔ فریڈرک دوم کے تمام درباری موسیقار عربی نسل سے تھے۔ سپین میں جب کسی تہوار یا شادی پر گانے والوں کی ضرورت محسوس ہوتی تو غرناطہ یا قرطبہ سے عرب گانے والوں کو بلایا جاتا تھا۔ خلیفہ مامون کی ایک کنیز عُریب ایک ہزار راگ گا سکتی تھی ایک اور کنیز بذل نے موسیقی پہ کتاب لکھی جس میں سات ہزار راگوں کا ذکر کیا۔ افسوس مسلمان نے ساری دنیا کو اخلاق ، تہذیب و تمدن اور علوم و فنون کا درس دے رہے تھے آج وہ مسلمان جہاں بھی ہیں ہر لحاظ سے پسماندہ ہیں۔ اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آج ہم جابر بن حیان، بو علی سینا ، الرازی اور الکندی جیسے سائنسدانوں کی تصانیف سے محروم ہیں۔

No comments:

Post a Comment

پاکستان اور ایران

 انسان صدیوں سے جھوٹا دعوی کرتا رہا ہے کہ ہم وطن سے محبت کرتے ہیں اور ہمارا وطن ہماری دھرتی ماں ہےلیکن حقیقت تو یہ ہے کہ جب بھی اس دھرتی ماں...