Sunday, February 9, 2020

ویلنٹائن ڈے

آج کے مسلمان نوجوانوں میں جو غیر اسلامی رسومات پھیل رہی ہیں ان میں سے ایک رسم Valentine Day منانا بھی ہے۔   ویلنٹائن ڈے 14 فروری کو "یوم محبت" یا "یوم عاشقی" کے نام سے منایا جاتا ہے اور شرم و حیا کی تمام حدوں کو پار کیا جاتا ہے۔ اس ایک دن کی عارضی محبت کا اظہار لڑکے اور لڑکیوں میں سرخ پھولوں کے تبادلہ سے ہوتا ہے اور بعض اوقات اسکا نتیجہ " محبت میں ناکامی کی وجہ سے عاشق کا محبوبہ کو قتل کرنا ، پسند کی شادی نہ کرنے پر خودکشی اور غیرت کے نام پر بہن کا قتل " ہوتا ہے۔ Valentine Day کی ابتدا 1700 سال قبل ہوںٔی Encyclopedia of Britannica کے مطابق قدیم رومیوں میں 15 فروری کو ایک مشرکانہ تہوار منایا جاتا تھا۔ رومیوں کے مطابق 15 فروری کا دن "یونو" دیوی کے نزدیک مقدس تھا اور "یونو" کو محبت کی دیوی کہا جاتا تھا۔ لڑکیوں کے نام ایک برتن میں ڈال دیتے اور دیکھے بغیر مرد جس لڑکی کا نام نکالتے تہوار ختم ہونے تک وہ لڑکی اسکی ساتھی بن جاتی۔ روم میں جب عیساںٔیوں کا دور آیا تو لڑکیوں کے نام کی بجاۓ اولیاء Saints کے نام ڈالتے اور جس Saint کا نام نکلتا مرد کو سارا سال اس کی تقلید کرنی پڑتی لیکن دوبارہ پھر لڑکیوں کا نام ڈالنے لگے۔ تیسری صدی عیسوی کے آخر میں رومانوی بادشاہ کلاڈیس ثانی نے پابندی عاںٔد کر رکھی تھی کہ کوںٔی فوجی شادی نہیں کر سکتا تھا تو Valentine ایک عیساںٔی راہب جو ایسے فوجیوں کی خفیہ شادیاں کرواتا تھا ،اس کے جرم میں Valentine کو بادشاہ نے قید کروا دیا دورانِ قید اُسکی جیل کےایک سپاہی کی بیٹی سے واقفیت ہو گںٔی اور اس کا عاشق ہو گیا۔ وہ لڑکی سرخ پھول لے کر اسکی زیارت کیلںٔے آتی تھی جب بادشاہ کو اس بات کی خبر ہوںٔی تو بادشاہ نے اسے270ء عیسوی میں پھانسی دینے کا حکم دیا جب راہب کو پھانسی کی سزا کا علم ہوا تو اُس نے لڑکی کو ایک خط لکھا جس کے آخر میں لکھا تھا "Your Valentine" جو بعد میں لوگوں میں مقبول ہو گیا۔

496ء میں عیساںٔیوں نے اس تہوار کو یوم Saint Valentine کا نام دیا۔ جب قرعہ انداذی نےلڑکوں اور لڑکیوں کی پسند میں مشکلات پیدا کیں تو فرانس نے 1776ء میں اس سے جان چھڑا لی اور بعد میں دوسرے ممالک جرمنی، آسٹریا،ہنگری اور اٹلی نے بھی اس سے پیچھا چھڑا لیا۔ انگلینڈ مںں بھی اس دن کو ممنوع قرار دے دیا گیا لیکن بعد میں چارلسII نے دوبارہ منانے کا فیصلہ کیا۔

پاکستان میں آج کے نوجوانوں میں ویلنٹاںٔن ڈے کے موقع پر سرخ رنگ کے کپڑے پہننا ،ویلنٹاںٔن کارڈز اور سرخ پھولوں کاتبادلہ عام ہوتاجا رہا ہے۔اس رسم کا آغاز جس مقصد کیلںٔے بھی کیا گیا ہو آج اس رسم نے بے حیاںٔی کا طوفان کھڑا کر دیا ہے جس کے نتیجہ میں بے حیاںٔی ،بداخلاقی اور آزادانہ جنسی تعلق کو فروغ دیا جا رہا ہے۔اس تہوار کا ہمارے مذہب اور ہماری ثقافت سے کوںٔی تعلق نہیں۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے؛ مسلمان مردوں کو حکم دو کہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ، یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے، بیشک اللہ ان کے کاموں سے خبردار ہے۔(النور ٣٠) ، اور مسلمان عورتوں کو حکم دو کہ وہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنی زینت نہ دکھائیں۔ (النور ٣١) قصہ مختضر محبت کا اظہار ایک دن میں نہیں کیا جا سکتا اسلام میں اولاد ، والدین اور رشتہ داروں حتی کہ پڑوسیوں تک کے حقوق ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 2017ء میں ویلنٹاںٔن کے موقع پر 18.2 بلین امریکی ڈالر خرچ ہوۓ۔ اسلام میں فضول خرچی کرنے سے منع کیا گیا ہے لیکن کچھ لوگ اختلاف کرتے ہیں کہ ایک پھول دینے سے کیا فضول خرچی تو اس موقع پر صرف پھولوں کا تبادلہ ہی نہیں ہوتا بلکہ امیر خاندانوں کے نوجوان سٹار ہوٹلوں اور ریسٹورینٹس کا رخ کرتے ہیں اور اوسط خاندان سے تعلق رکھنے والےطلباء جو ڈیلی روٹین میں پچاس روپے والے برگر پر بھی گزارہ کر لیتے وہ بھی اس دن آںٔسکریم پارلرز اور دیگر فوڈز پواںٔنٹ میں وہی برگر اور پیزا پانچ سو میں کھاتے نظر آ رہے ہوتے ہیں۔ جس ملک میں 80 فیصد عوام کو صاف پینے کا پانی نہ ملے تو اس ملک میں ویلنٹاںٔن ڈے منانا فضول خرچی ہے۔ پاکستان میں روزانہ 140 بچے پانی نہ ملنے کی وجہ سے مر رہے ہیں۔ میری ان ویلنٹاںٔن ڈے منانے والوں سے درخواست ہے کہ وہ اس بار اپنا ویلنٹاںٔن ڈے ان بچوں کے نام کر دیں اور صرف ایک دن کے 140 مرنے والے بچوں کو بچا لیں۔

امریکہ اور یہودیت

اسلامی دنیا کا سب سے بڑا دشمن اسرائیل ہے آج اسرائیل دنیا کے کسی بھی کونے میں بدمعاشی کرے تو امریکہ لپک کر ڈھال بن جاتا ہے اور ساری لعنت اپنے سر لے کر اسرائیل پر آنچ بھی نہیں آنے دیتا۔ ساری دنیا امریکہ کے سپر پاور ہونے کا ڈھنڈورا پیٹتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہے اگر کچھ ہے تو یہودیت ہے، امریکہ یہودیت سے ہے یہودیت امریکہ سے نہیں ہے، امریکہ کی بنیادیں یہودی اصولوں پر مبنی ہیں۔ 

یہودیت نے امریکہ کو جکڑ رکھا ہے، سیاست، معیشت، معاشرت، پریس، غرض زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں جس پر امریکہ میں یہودی قابض نہ ہوں۔ وزارت خارجہ، پینٹاگان، سی ۔ آئی ۔اے، سفارت خانوں اور دفاعی اداروں کی تمام بڑی پوسٹوں پر یہودی قابض ہیں۔ یورپی ممالک کی طرف سے جو اہم سفارت امریکہ بھیجی جاتی ہے اس کا سربراہ عموماً یہودی ہوتا ہے اسی طرح جب امریکہ یورپی ممالک سے رابطہ کرتا ہے تو اس کی نمائندگی کرنے والا سربراہ بھی یہودی ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ کے دس انتہائی اہم اداروں کے اہم عہدوں کے سربراہ یہودی ہیں۔ اقوام متحدہ کے صرف نیو یارک کے دفتر کے 22 شعبوں کے سربراہ یہودی ہیں۔ یونیسکو (Unisco) میں نو شعبوں کے سربراہ یہودی ہیں۔ آئی۔ ایل۔ او(I. L.O) کی تین شاخوں کے سربراہ یہودی ہیں۔ آئی۔ ایف۔ اے (I. F. A) کے گیارہ شعبوں کے سربراہی یہودیوں کے پاس ہے۔ عالمی بینک (World Bank) میں چھ اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (I. M. F) میں نو شعبوں کے سربراہ وہ لوگ ہیں جن کا تعلق یہودیوں کی عالمی تنظیم سے ہے۔ یہ تمام عہدے جو یہودیوں کے پاس ہیں انتہائی اہم اور حساس ہیں۔ اس کے علاوہ بے شمارایسے یہودی ہر شعبے میں موجود ہیں جن کا تعلق یہودیوں کی عالمی تنظیم سے ہے اور یہ عالمی سیاسیات اور معاشیات کا رخ جس سمت چاہیں موڑ سکتے ہیں جو وہ سر انجام دے رہے ہیں۔ اسکی ایک مٹال سی۔ آئی۔ اے (C. I. A) ہے جو ان کے قدموں پر چلتی ہے۔
 

یورپ کو تہذیب یافتہ کس نے بنایا


Henry Ford نے کہا تھا تاریخ دھوکہ ہے۔ میں اس بات سے اتفاق کروں گا آج کا یورپ وامریکہ اسکی زندہ مثال ہے۔ آج اپنے آپکو پر امن اور با اخلاق تہذیب کا گہوارہ کہلانے والا یورپ کو ہمارے مسلم آباؤ اجداد نے ہی اٹھنے، بیٹھنے ،کھانے ،پینے اور رہنے سہنے کے آداب سکھاۓ تہذیب کے طور طریقے اور لکھنا پڑھنا سکھایا اور اسطرح ایک وحشی قوم کو جہالت سے نکالا، لیکن افسوس آج کایورپ مسلم دنیا کو ایک آنکھ نہیں دیکھنا چاہتا۔

٨٠٠ قبل مسیح یورپ میں مختلف وحشی قبائل بت پرست آباد تھے۔ جن کا کام لڑنا اور ڈاکے ڈالنا تھا، پڑھنا لکھنا سے واقف تک نہ تھے ہر طرف جہالت کی تاریکی تھی انسانیت کا نام تک نہ تھا۔ گیارھویں صدی عیسوی میں اسلامی تہذیب اور علوم و فنون مختلف راستوں سے یورپ تک جا پہنچے۔ پھر پانچ چھ صدیوں بعد تعلیمی ادارے قائم ہوۓ اور عربی علوم کے انگریزی، فرانسیسی اور دیگر زبانوں میں تراجم ہوۓ۔ اسی دوران برطانیہ، فرانس اور امریکہ میں انقلابات آۓ اور اسطرح جہالت اور وحشیت کا دور ختم ہوا۔ پروفیسر آرنلڈ لکھتے ہیں کہ "عربی کتابوں کے سینکڑوں تراجم یورپ کی برباد زمین پر بارش بن کر برسے اور مختلف شعباۓ علم نے انگڑائی لی۔" لی بان نے کہا "اگر عربوں کی تاریخ یورپ کی تاریخ سے نکال دیا جاۓ تو یورپ کی تہذیب کئی سو سال پیچھے جا پڑتی ہے۔" 

نہ جانے ہماری سے ایسی کیاخطا ہو گئی کہ اس وحشی قوم نے سنبھلتے ہی ہمیں لوٹا اور غلام بنا لیا، بڑے بڑے علماء و حکماء کو قتل کر دیا گیا، یہاں تک کی ہماری تاریخ کو ہی مسخ کردیا۔ مختلف ادوار اور مقامات میں ساٹھ لاکھ کتابیں جلا دی گئیں اور بچی کھچی کتابیں یورپ پہنچا دی گئیں اور اسطرح ہمارے علوم کو بنیاد بنا کر دنیا کی وحشی قوم تہذیب یافتہ قوم بن گئی اور ہم لٹ کر دہشت گرد بن گئے۔ یورپ جو بارھویں صدی تک کاغذ کے نام سے واقف تک نہ تھی آج اس یورپ نے ہمارے سامنے ایک ایسا نصاب پیش کیا جس میں ہمیں یہ پڑھایا جاتا ہے کہ امریکہ کولمبس نے دریافت کیا، بونگ سٹون نے افریقہ دریافت کیا اور راجر بیکن بارود کے موجد ہیں لیکن یہ کوئی نہیں جانتا کہ یورپ کا باباۓ سائنس راجر بیکن عربوں کا شاگرد تھا۔ بیکن نے بارود سازی ایک عربی کتاب (النیران المحرقه) سے سیکھی تھی۔ توپ کو سب سے پہلے افریقہ کے ایک سردار یعقوب نے ١٢٠٥ء میں استعمال کیا، بیکن کا دعوی بالکل غلط ہے۔کولمبس بھی عربوں کا شاگرد تھا اس کے پاس کمپاس تھا جس کا موجد احمد بن ماجد تھا اور یہ آلہ عربوں کے ہر تجارتی و جنگی جہازوں میں لگا ہوا تھا لیکن جب یہ آلہ یورپ والوں کے پاس پہنچا تو کولمبس اسکی رہنمائی لیتے ہوۓ امریکہ جا پہنچا۔ اور افریقہ جانے والوں کے پاس جو نقشے تھے وہ عرب صدیوں سے بحیرہ روم، بحیرہ قلزم، بحر ہند اور بحر الکاہل کے سفر میں استعمال کرتے تھے۔ اور واسکوڈے گاما جب ملیندا پہنچا تو احمد بن ماجد نے ہی اسے ہندوستان کا راستہ بتایا۔ آج سے تقریباً ٤٠٠ برس قبل ابن نفیس نے دوران خون کا عمل دریافت کیا لیکن میڈیکل کی کتابوں میں ابن نفیس کی جگہ ولیم ہاروے کا نام دیا گیا ہے۔ جب نیوٹن اور گلیلیو نے کہا تھا تمام طبعی قوانین مطلق ہیں تو الکندی نے کہا اضافی ہیں لیکن ہمارے نصاب میں لکھا ہے کہ نظریہ اضافت آئن سٹائن نے پیش کیا لیکن الکندی کو کوئی نہیں جانتا جس نے فلسفہ، حساب، طبیعات، ہیت ، طب، موسیقی اور دیگر عنوانات پر دو سو پچیس کتابیں لکھیں۔ جابر بن حیان نے کیمیا پر تقریباً ٢٠٠٠ مضامین لکھے ایک مترجم نے جابر بن حیان کے لاطینی ترجمہ کو لفظ جابر کو "جیبر" کی شکل دے کر اپنی تصنیف بنا لیا۔ راجر بیکن نے ابن الہیثیم کے مشاہدات کو ہی بنیاد بنا کر دوربین ایجاد کی اور ابن الہیثیم نے دو سو کبابیں لکھیں۔دل ڈیوران لکھتے ہیں کہ ایک مسلمان سائنسدان ابن فرناس نے گھڑی اور عینک کا شیشہ ایجاد کر کے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا لیکن آج ابن فرناس کا نام کوئی نہیں جانتا۔ فریڈرک دوم کے تمام درباری موسیقار عربی نسل سے تھے۔ سپین میں جب کسی تہوار یا شادی پر گانے والوں کی ضرورت محسوس ہوتی تو غرناطہ یا قرطبہ سے عرب گانے والوں کو بلایا جاتا تھا۔ خلیفہ مامون کی ایک کنیز عُریب ایک ہزار راگ گا سکتی تھی ایک اور کنیز بذل نے موسیقی پہ کتاب لکھی جس میں سات ہزار راگوں کا ذکر کیا۔ افسوس مسلمان نے ساری دنیا کو اخلاق ، تہذیب و تمدن اور علوم و فنون کا درس دے رہے تھے آج وہ مسلمان جہاں بھی ہیں ہر لحاظ سے پسماندہ ہیں۔ اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آج ہم جابر بن حیان، بو علی سینا ، الرازی اور الکندی جیسے سائنسدانوں کی تصانیف سے محروم ہیں۔

پاکستان اور ایران

 انسان صدیوں سے جھوٹا دعوی کرتا رہا ہے کہ ہم وطن سے محبت کرتے ہیں اور ہمارا وطن ہماری دھرتی ماں ہےلیکن حقیقت تو یہ ہے کہ جب بھی اس دھرتی ماں...